Home بلاگ ایک نفسیاتی جال Learned Helplessness اور اس کا توڑ

ایک نفسیاتی جال Learned Helplessness اور اس کا توڑ

سائیکالوجی میں ایک Concept ہے جسے Learned helplessness کہا جاتا ہے اور 1967 میں مشہور ماہرِ نفسیات Martin Seligman Father of Positive Psychology اور Steven Maier نے اس سے دنیا کو متعارف کیا۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں یہ پایا کہ جب کسی فرد یا جانور کو بار بار ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے جس میں اس کے پاس کوئی اختیار نہ ہو تو وہ ایک ایسی سوچ اپنا لیتا ہے کہ اب کوئی کوشش کرنا بے کار ہے۔ اس کے بعد جب حالات بدل بھی جائیں اور وہ کنٹرول حاصل کر سکتا ہو، تب بھی وہ بے بس اور لاچار محسوس کرتا ہے اور کوئی کوشش نہیں کرتا۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جو ذہن میں جڑ پکڑ لیتی ہے اور انسان کو مسلسل مایوسی اور بے بسی کا شکار کر دیتی ہے۔
یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک بندہ اپنے حالات کو بدلنے کی صلاحیت ہونے کے باوجود اپنے خراب حالات کو قبول کرے اور اُن کے ساتھ جینے کا فیصلہ کرلے.
اگر ہم آج کے دور پر نظر ڈالیں تو ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں لوگوں بارےمیں یہ helplessness نظر آتی ہے۔ لوگ depression، anxiety، اور stress میں مبتلا ہیں اور اکثریت اپنی عادات اور choices کی وجہ سے ان مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ مگر انہوں نے اس بے بسی کو سیکھ لیا ہے اور ان کے لیے یہی معمول بن گیا ہے.
They’ve made peace with this.
اس کی ایک بڑی سادہ سی مثال ہے.
آپ نے دیکھا ہوگا کہ کہ لوگ آج loneliness کا شکوہ کرتے ہیں؟ وہ سوشل میڈیا پر ماضی کی تصویریں پوسٹ کرتے ہیں جب وہ اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے، ہنستے تھے، اور زندگی انجوائے کرتے تھے. دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ جن دوستوں کے بارے میں وہ یہ سب شیئر کرتے ہیں وہ بھی کہیں نہ کہیں یہی سب شیئر کررہے ہوتے ہیں. انہی دوستوں کے ساتھ آج بھی رابطہ ہے، مگر کوئی بھی وقت نکال کر ملنے یا وہی لمحات دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ سب بس سوشل میڈیا پر ماضی یاد کرتے ہیں، پرانے دنوں کا شکوہ کرتے ہیں جب کہ ہم کہ شکوے ایک کال یا میسج سے ختم کرسکتے ہیں.
اب اکثر کے ہاس یہ بہانہ ہوتا ہے کہ وقت نہیں ہے یا ہم اب Mature ہیں. یہ سچ ہے کہ وقت کے ساتھ maturity اور ذمہ داریاں آتی ہیں، لیکن یہ اگر ہمیں ہماری خوشیوں سے دور لے جائے تو یہ فائدے کے بجائے نقصان دہ ہو جاتی ہے۔ بہت سے لوگ اپنی زندگی کی خوشیوں کو خود اپنے ہاتھوں سے ترک کر رہے ہیں، اور اس کا ذمہ دار حالات کو ٹھہراتے ہیں۔آئے دن لوگ تنہائی یعنی Loneliness کا شکار ہوتے آرہے ہیں.
اس Loneliness کے اثرات کو سمجھنے کے لیے درجنوں ریسرچرز بھی کی جا چکی ہیں۔ ایک ریسرچ جو American Journal of Public Health میں شائع ہوئی، بتاتی ہے کہ تنہائی انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔س ریسرچ کے مطابق، جو لوگ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں، ان میں depression اور anxiety کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کی جسمانی صحت بھی خراب ہو جاتی ہے اور ان میں دل کی بیماریوں اور قبل از وقت موت کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایک اور بہت مشہور ریسرچ ، Harvard Study of Adult Development، جو دنیا کی سب سے طویل مدت تک چلنے والی ریسرچ (اس پر ایک کتاب بھی The Good Life جس کی PDF آپ مجھ سے مفت میں لے سکتے ہیں)اُس نے یہ ثابت ہوا کہ دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ وقت گزارنا انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے انتہائی مفید ہوتا ہے۔ ریسرچ میں شامل لوگ جو اپنے رشتوں کو مضبوط رکھتے تھے، وہ نہ صرف زیادہ خوش تھے بلکہ لمبی اور صحت مند زندگی گزارتے تھے۔
اس Loneliness کے علاوہ دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے حال کو انجوائے کرنے کے بجائے ماضی میں جیتے ہیں یا مستقبل کی فکریں کرتے رہتے ہیں۔ ہم اکثر وہ وقت یاد کرتے ہیں جب ہم خوش تھے، لیکن وہ لمحے آج بھی دوبارہ زندہ ہو سکتے ہیں۔ ہم ماضی کے خیالات میں گم ہو کر اپنے حال کو کھو دیتے ہیں، اور مستقبل کے خوف ہمیں حال کی خوشیوں سے دور رکھتے ہیں۔
یہ بالکل ایسا ہی کہ
"We suffer less in reality and more in imagination.”
اصل زندگی میں ہمارے مسائل اتنے بڑے نہیں جتنے ہم اپنے ذہن میں بنا لیتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ خوشی حاصل کرنا یا خوش رہنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ جیسے ہم نے helplessness کو سیکھا ہے، اسی طرح ہم optimism بھی سیکھ سکتے ہیں، جو کہ learned helplessness کا بہترین antidote ہے۔
اس Optimism کا مطلب ہے کہ ہم زندگی کے مثبت پہلوؤں پر توجہ دیں اور اس بات پر یقین رکھیں کہ ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
مگر Optimism کو کیسے سیکھا جائے؟
اس Optimism سیکھنا بھی ممکن ہے اور اس کے لیے کچھ چھوٹے چھوٹے قدم ہیں جو آپ اٹھا سکتے ہیں:
1. Positive self-talk:
اپنے آپ سے مثبت باتیں کریں اور منفی خیالات کو چیلنج کریں۔ جب آپ کو کوئی مشکل پیش آئے تو اس کو ایک موقع سمجھیں۔
2. Gratitude practice:
روزانہ شکر ادا کریں، چاہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہو، جیسے صحت، دوست، یا اچھا دن۔
3. Realistic goals:
چھوٹے اور قابلِ حصول اہداف مقرر کریں، اور جب آپ انہیں حاصل کریں تو خود کو سراہیں۔
4. Social connections:
اپنے دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزاریں۔ یہ نہ صرف آپ کے mood کو بہتر بناتا ہے بلکہ آپ کی ذہنی صحت پر بھی مثبت اثر ڈالتا ہے۔
5. Present moment:
حال میں جینا سیکھیں اور ماضی یا مستقبل کی فکر میں اپنے آج کو ضائع نہ کریں۔
یاد رکھیں، زندگی میں خوشی کا انتخاب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جیسے آپ نے helplessness کو سیکھا ہے، ویسے ہی آپ optimism کو بھی سیکھ سکتے ہیں۔
کل کو بہتر بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ آج کا دن خوشگوار اور بامعنی بنائیں اور اس کے لیے آج ہی اپنے کسی پرانے دوست کو کال کریں اور پُرانی یادوں کو زندہ کریں.
اگر آپ کو یہ پوسٹ پسند آئی یا اس سے کچھ سیکھنے کو ملا تو اسے دوسروں کے ساتھ ضرور شیئر کریں تاکہ کسی اور کو بھی اس سے سیکھنے کا موقع ملے.

Exit mobile version