Home اسلام مُردوں کی روحـیں اپنے گـھروں کو آتی ہیـں

مُردوں کی روحـیں اپنے گـھروں کو آتی ہیـں

ہمارے معاشرے میں ایک بات بہت مشہور ہوگئی ھے کہ:

* جمعرات (شبِ جمعہ)
* یومِ عاشوراء
* عیدین
* 15 شعبان
* 27 رمضان
* 10 محرم
* منگل کی شام
* 12ربیع الاول

کو یا کسی اور مخصوص دن کو ان کے وفات پا گئے پیاروں کی روحیں اپنے گھروں کو آ کر سوالات کرتی ہیں۔ وہ یہ دیکھنے کے لیے آتی ہیں کہ کون ان کے لیے دعا کرتا ھے کون نھیں۔ اگر کوئی ان کے لیے دعا یا عبادت کر رہا ہو تو وہ خوش ہوتی ہیں اور اگر نھیں تو وہ مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتی ہیں۔

یہ ایک غلط سوچ ھے

اصل:-

یہ عقیدہ بنیادی طور پر ہندو دھرم کا ھے، کچھ عقائد ملاحظہ ہوں:

☆ عقیدہ اوّل:
ہندوؤں کا یہ عقیدہ ھے کہ ان کے مُردوں کی روحیں مخصوص دنوں میں اپمے گھروں کو آتی ہیں اور دیکھتی ہیں کہ کون ہماری مُکتی (بخشش) کے لیے دعا وغیرہ کرتا ھے۔ اگر تو ان کے رشتے دار ایسے کام کر رہے ہیں تو اسے مُکتی مل جائے گی نہیں تو اسے مکتی نہیں ملتی اور وہ بھٹکتی رہتی ہیں۔

☆ عقیدہ دوم:
مرنے کے بعد روح، سال گزر جانے کے بعد یعنی ہر برسی پر، اپنے گھر واپس آتی ھے مگر "کوے” کے روپ میں۔ اسی لیے ہندو اس مخصوص دن کو کوے کے لیے بہت سے کھانے پینے و لوازمات جمع کرتے ہیں کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق جو کوا اس دن ان کے گھر آئے وہ ان کی سال پہلے مرے رشتہ دار کی روح ہوتی ھے۔
(ملاحظہ ہو: رمائیانہ)

☆ عقیدہ سوم:
مرنے والے کی روح ۱۱ دن کے ایک ایسے مرحلے سے گزرتی ھے جو اسے ہر طرح کی برائی سے پاک کر دیتا ھے، اس دوران وہ کچھ دن نرک، کچھ سورگ، کچھ آسمان، کچھ پانی میں گزارتی ھے، کچھ عقائد کے مطابق وہ کچھ دن اپنے ہی گھر میں رہتی ھے اور پھر واپس چلی جاتی ھے۔
جن کا قتل ہو جاتا ھے وہ مخصوص دنوں میں اپنے گھروں کو لوٹ کر آتی ہیں خصوصاً جب مہرتا کے دن ہوتے ہیں، اور جس نے اسے قتل کیا تھا اسے بھوت بن کر ڈراتی ہیں۔
(ملاحظہ ہو: گرودا پورانا، دھرما گھندا، باب – ۳۴)

اِضافی:-

ہمارے معاشرے میں دین سے کم علمی کی بنیاد پر کچھ لوگوں نے اس بے بنیاد عقیدے کو دین کا عقیدہ بنا کر لوگوں کے سامنے رکھا ھے۔ کچھ حضرات کا تو کہنا یہ بھی ھے کہ مخصوص اوقات یا مخصوص دنوں میں روحوں کا گھروں میں آنا حدیث سے ثابت ھے۔ جس کے عوض میں وہ ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جس کا نام نورالصدور ھے۔ اس پر ایک نہیں دو نہیں سینکڑوں عظیم مفتیان کرام، شیخ الحدیث علماء نے تحقیق کی اور اس سب کا نچوڑ ذیل میں دہے فتویٰ میں درج ھے:-

¤ فتویٰ:

ارواحِ مؤمنین کا شبِ جمعہ وغیرہ کو اپنے گھر آنا کہیں ثابت نہیں ہوا، یہ روایات واہیہ ہیں۔ اس پر عقیدہ کرنا ہرگز نہیں چاہیے۔
فقط واللّٰه تعالیٰ اعلم

(فتویٰ عدد: 144008200722 – جمامعہ علوم اسلامیہ پاکستان)

◯ علین و سجین:
مرنے کے بعد اگر میت نیک انسان تھا تو اسکی روح علیین، یعنی جنت میں ایسی جگہ جہاں نیک لوگوں کی روحیں رہتی ہیں، ادھر پہنچا دی جاتی ھے اور اگر میت گنہگار انسان کی ھے تو اس کی روح سجین، یعنی جہنم کی وہ جگہ جہاں گنہگاروں کی روحیں رہتی ہیں، وہاں پہنچا دی جاتی ھے۔
ان میں سے کوئ بھی روح چھوٹ کر اللّٰه ﷻ کی مرضی کے بغیر دنیا میں نہیں آسکتی۔ بری روحوں کو فرشتے چھوڑتے نہیں اور نیک روحیں جنت سے واپس اس دنیا میں آنا ہی نہیں چاھیں گی۔

حاصلِ کلام:-

یہ کہنا کہ پچھلے لوگوں کی روحیں موجودہ لوگوں کو دنیا میں آ کر پریشان کرتی ہیں، یہ بات بالکل غلط ھے۔ عمومی طور پر اس بات سے جُڑی جتنی روایات بیان کی جاتی ہیں، تمام کی تمام جھوٹی اور خود ساختہ ہیں۔ پس یہ عقیدہ مسلمانوں میں برِصغیر کے ہندوؤں سے آیا ھے اور ایسی بات کا شریعتِ اسلامیہ سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ مزید یہ کہ مرنے کے بعد روح کا گھر واپس آنا یا جمعرات کو اپنے گھروں کے چکر لگانا، قرآن و صریح حدیث سے کہیں بھی ثابت نہیں ھے۔ اس طرح عقائد سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی تحمل سے سمجھائیں۔ اللّٰه ﷻ ہم سب مسلمانوں کو تمام ہندوانہ عقائد اور رسم و رواج سے بَری فرما دیں۔ ۔ ۔آمین!

NO COMMENTS

Exit mobile version