ہفتہ, جون 10, 2023
ہفتہ, جون 10, 2023
- Advertisment -

رپورٹر کی مزید خبریں

بلاگایزی ہیلتھ کیئر ۔ غریب مریضوں کیلئے شمعِ امید

ایزی ہیلتھ کیئر ۔ غریب مریضوں کیلئے شمعِ امید

یہ ہماری قومی بد قسمتی ہے کہ ابتدائے کار ہی سے وطن عزیز پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل چلا آ رہا ہے، جہاں صحت کا نظام انتہائی زبوں حالی سے دو چار ہے۔ نظام کی ابتری کے نتیجے میں حالات یہ ہیں کہ صحت کا شعبہ ایک طرف کرپشن کا گڑھ اور پیدا گیری کے رسیا زر پرست عناصر کیلئے سب سے پر کشش انتخاب کی صورت اختیار کر چکا ہے تو دوسری طرف یہ صحت کا قومی نظام بیماروں کو مناسب علاج معالجہ، شفا اور صحت بہم پہنچانے کے بجائے مزید درد و آلام میں مبتلا کرنے کا ہی سامان کرتا آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جہاں صحت کا شعبہ انتہائی ناقص اور کمزور اسٹرکچر پر کھڑا ہے، وہاں بیماروں اور بیماریوں کا بھی لا متناہی سلسلہ ہے۔ عالم یہ ہے کہ ملک بھر میں شہر تو رہے ایک طرف، قصبوں اور دیہات تک میں جگہ جگہ مستند و اتائی ڈاکٹر، ہو میو پیتھ، طب قدیم سے شغل رکھنے والے، سنیاسی بابے اور ”روحانی” معالج دکانیں، مطب، آستانے، ڈسپنسریاں اور کلینک سجائے بیٹھے ہیں، مگر جس قدر معالجین کی بہتات ہے، بجائے ان کی اجتماعی کاوشوں سے بیماریاں ختم ہونے کے، بیماروں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔

حالت یہ ہے کہ مذکورہ تمام اقسام کے معالجین کے ہاں ہمہ وقت بیماروں اور مصیبت کے ماروں کی قطار لگی رہتی ہے۔ بیماروں کو دوا دے کر صحت و خوشحالی کے جام معالجین پئے جا رہے ہیں اوردوا لینے والے بیمار کے بیمار ہی رہ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کراچی کی ایک دور افتادہ بستی میں ایک حکیم صاحب کا شہرہ سن کر ان کے پاس جانے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ یہ شہر کا ایک مضافاتی پہاڑی علاقہ ہے، جو روڈ انفرا اسٹرکچر سمیت ہر ضروری شہری سہولت سے محروم ہے۔ حکیم صاحب پہاڑی کے دامن میں مطب کرتے ہیں۔ بستی میں پہنچنے کے بعد مطب تک پہنچنے کیلئے خاصی طویل مستقیم چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے۔ ہم ہانپتے کانپتے مطب پر پہنچے تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ بیماروں کی ایک فوج بیماریوں کی پوٹ اٹھا کر صحت کی تلاش میں پہاڑی پر پہنچی ہوئی تھی، جبکہ ایک لشکرِ بیماراں ابھی راستے میں تھا۔ الغرض صحت کا قومی نظام مربوط، منظم اور اطمینان بخش نہ ہونے کے باعث گلی گلی کلینک کھلے ہوئے ہیں مگر جس قدر شفا خانے ہیں، اتنی ہی بیماریاں بھی ہیں۔

صحت کا صفائی ستھرائی اور معیاری غذا و خوراک سے گہرا تعلق ہے، المیہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں سرکاری بد انتظامی، ریاستی گرفت اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث ہر طرف تباہی ہی تباہی پھری ہوئی ہے۔ صفائی پر مامور عملہ و محکمہ اگر کام چور ہے تو ہم عوام بھی غیر ذمے دارانہ برتاؤ میں کسی سے کم نہیں۔ جیسے عوام ہوں، ویسے حکام ہوتے ہیں کہ آخر حکام بھی انہی عوام میں سے منتخب ہوتے ہیں، چنانچہ ذمے داریوں سے فرار، کوتاہی اور غفلت کی ہماری مجموعی قومی عادت حکام کی کارکردگی میں بھی سرایت کر گئی ہے اور وہ بھی عوام کی طرح کام چور اور احساس ذمے داری سے یکسر عاری ہو چکے ہیں۔ حکومت کی گرفت اور کنٹرول نہ ہونے سے خوراک کا شعبہ بھی ”بفضلہ تعالیٰ” ہر طرح سے آزاد و خود مختار ہے۔ کسی سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ وہ کیا بیچتا ہے، کیسے بیچتا ہے۔ ہر شخص اپنی صوابدید اور مرضی سے جو چاہے جیسے چاہے بیچتا ہے۔ سب کو اس کے حصے کے خریدار مل جاتے ہیں۔ یوں حکومتی عملداری کا وجود نابود ہونے کے نتیجے میں لوگ دھڑلے سے مضر صحت اشیاء بیچتے اور دل کھول کر بیماریاں خریدتے اور معدے میں اتارتے جاتے ہیں۔ ایسے میں مریضوں اور امراض میں اضافہ نہ ہوگا تو بھلا اور کیا ہو گا۔

مذید پڑھیں :پاکستان کا سری لنکا کے لیے امداد کا اعلان

سرکاری بد انتظامی جہاں بیماریوں کی افزائش کا سبب بن رہی ہے، وہاں افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ صحت کیلئے الگ سے محکمہ ہونے کے باوجود بیماروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اس بات پر ہمیشہ تنقید ہوتی ہے کہ صحت ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں بہت پیچھے ہے اور ہر کوئی اس بات پر نالاں ہے کہ اس اہم ترین شعبے کیلئے آبادی کی ضروریات کے مقابلے میں انتہائی نا کافی بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔ اس میںدوسری رائے نہیں کہ شعبہ صحت حکومتوں کی ترجیحات میں بہت نیچے اور پیچھے ہے، مگر یہ کہنا کہ بجٹ بھی قرار واقعی نہیں ہوتا، بحث طلب امر ہے۔ بجٹ کم اور ناکافی ہو یا زیادہ اور کافی ہو، بنیادی بات بجٹ کے صحیح استعمال کی ہے۔ ہر سال ہیلتھ کیلئے جتنا بجٹ مختص کیا جاتا ہے، کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس کا استعمال درست اور اطمینان بخش انداز میں ہوتا ہے؟

پاکستان کے صحت کے نظام میں بنیادی مراکز صحت (BHUs) تحصیل و ضلعی ہیڈکوارٹر اسپتالوں تک تین درجے کی سہولتوں کا ڈھانچا موجود ہے۔ ہر سال صوبائی اور وفاقی سطح پر مختص کیا جانے والا بجٹ خواہ کم ہی ہو، صحیح، شفاف اور systematic بنیاد پر بروئے کار لایا جائے اور صحت کے شعبے سے وابستہ تمام ملازمین بشمول ڈاکٹر و انتظامی افسران فرض شناسی سے اسے استعمال کریں اور اپنا فرض تندہی سے انجام دیں تو جو پہاڑ مسائل اس شعبے میں منہ پھاڑے کھڑے ہیں، آن کی آن میں آدھے سے بھی زیادہ از خود کم ہوجائیں گے۔ اس معروضی صورتحال میں بجٹ میں اضافے سے زیادہ دستیاب بجٹ کا درست استعمال بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور بجٹ میں اضافے کے مطالبے سے پہلے دستیاب بجٹ کے درست استعمال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کام چوری اور کرپشن کا یہی عالم رہا اور بد انتظامی اور بد دیانتی کی یہی صورتحال رہی تو بجٹ میں دوگنا تگنا اضافہ بھی ملک میں صحت کا کوئی انقلاب نہیں لا سکے گا، بلکہ قوم کا جتنا سرمایہ اب بد انتظامی کے رخنوں سے رس رس کر ضائع ہو رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ تباہ ہونا شروع ہو جائے گا اور متعلقہ محکمہ اور اداروں کا قبلہ درست کیے بغیر بجٹ میں اضافہ غریب قوم کو پہلے سے کہیں بڑھ کر بھاری پڑے گا۔

سرکاری شعبے میں صحت کے نظام کی ابتری کے باعث لوگوں کا رجحان قوم کا بھاری سرمایہ کھانے والے سرکاری اسپتالوں کے بجائے پرائیویٹ اسپتالوں کی طرف بڑھ چکا ہے۔ لوگوں کا ذہن بن گیا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں علاج نہیں ہوتا، بلکہ ٹرخایا اور بیماروں کو مزید عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ تاہم غربت کے باعث ہر شخص پرائیویٹ اسپتالوں سے علاج افورڈ نہیں کر پاتا، یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت انتہائی مجبوری میں سرکاری اسپتالوں کا رخ کرتی ہے یا پھر بہت سے لا چار افراد گھروں پر ہی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جو پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

مذید پڑھیں :🕋شدید مصروفیت میں قرآن پڑھنا🕋

کراچی میں جناب ڈاکٹر محمد عارف آکھائی صاحب ایک انتہائی خدا ترس، متشرع، دین پر عامل و کار بند، اپنے پیشے سے مخلص اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار حقیقی مسیحا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو درد مند دل اور فکر مند دماغ دیا ہے۔ وہ وطن عزیز میں صحت کے شعبے کی تباہی اور خلق خدا کی کسمپرسی پربہت ملول رہتے ہیں اور ہمہ وقت اس فکر میں غلطاں رہتے ہیں کہ کس طرح وہ خلق خدا کو اپنے پیشے سے زیادہ سے زیادہ نفع پہنچا سکتے ہیں۔ اسی فکر و سوچ میں ڈاکٹر صاحب نے عملی قدم اٹھاتے ہوئے اپنی خصوصی نگرانی میں تمام تر سہولتوں سے آراستہ شفا خانہ قائم کر رکھا ہے، جہاں متوسط و غریب طبقے کے افراد کو پرائیویٹ اسپتالوں کے معیار کے مطابق صحت و علاج کی تمام سہولتیں انتہائی کم قیمت پر فراہم کی جاتی ہیں۔

ایزی ہیلتھ کیئر کے عنوان سے یہ اسپتال ڈاکٹر عارف آکھائی صاحب کی نگرانی میں کراچی کے پوش علاقے بہادر آباد میں قائم ہے۔ یہاں زچگی، جنرل سرجری، گردہ، مثانہ، ہڈی جوڑ، ناک، کان، حلق اور بچوں کے مختلف آپریشنوں کے علاوہ لیبارٹری ٹیسٹ، ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ کی سہولت انتہائی با رعایت و با کفایت نرخوں پر مہیا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے پینل پر شہر کے کئی معیاری پرائیویٹ اسپتال اور مختلف شعبوں کے انتہائی قابل پرائیویٹ پریکٹشنر ڈاکٹر صاحبان موجود ہیں، جن کو ڈاکٹر صاحب نے اپنی طرح مخلوق خدا کی خدمت کے قابل قدر جذبے کی لڑی میں پرو دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے قائم کردہ اس مرکزِ فیض کے متعلق تفصیلات ومعلومات ezhealthcare کے فیس بک پیج اور فون نمبر 0313/0335 0543942 پر صبح گیارہ سے شام سات بجے تک رابطہ کرکے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ بلاشبہ ایزی ہیلتھ کیئر شعبۂ صحت کی وسیع اندھیر نگری میں غریب بیماروں اور مجبوروں کیلئے امید و شفا کی کرن ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عارف صاحب اور جملہ معاونین و منتظمین کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور زیادہ سے زیادہ نافع بنائے، آمین۔

عنایت شمسی
عنایت شمسیhttp://alert.com.pk
عنایت شمسی روزنامہ اسلام میں ایڈیٹوریل بورڈ سے وابستہ ہیں اور سینئر سب ایڈیٹر بھی ہیں۔ آپ کا شمار بہترین لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ معاشرتی مسائل پر بہترین نکات لکھتے ہیں۔ آپ کے قلم سے درجنوں کتابوں تیار ہو کر مارکیٹ ہو چکی ہیں۔ آپ نے الرٹ نیوز کیلئے خصوص بلاگ لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔
متعلقہ خبریں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا