علی ہلال
25 دسمبر 2020 کو عالم اسلام کے مقبول حکمران ترک صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے اسرائیل میں اپنا سفیر تعینات کرنے کا اعلان سامنے آگیا جس پر تجزیہ کاروں نے اس لئے حیرت کا اظہار کیا کہ اگست میں اسرائیل کے ساتھ قیام امن معاہدہ کرنے والے متحدہ عرب امارات پر سب سے زیادہ تنقید کرنے والوں میں ترکی کا نام سرفہرست تھا ۔
ترک صدر نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کے خاتمے پر غور کرنے کا بھی عندیہ دیا تھا ۔ ترکی نے 2018 میں اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلوایا تھا تاہم ابھی انقرہ کی جانب سے اچانک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے اقدام نے عالم اسلام کے اس اہم ملک کے امورپر نظررکھنے والے تجزیہ کاروں کو حیرت میں ڈالا ۔
تاہم ترکی اسرائیل تعلقات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کی حیرت کی رواں ہفتے اس وقت انتہا نہ رہی جب اسرائیلی میڈیا نے اس خط کا متن شائع کردیا جو اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے ترک صدر کو بھیجا گیا ہے ۔
اس خط میں اسرائیلی وزیراعظم نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ تل ابیب کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے انقرہ کو کچھ شرائط ماننی ہوں گی ۔ جن میں پہلے نمبر پر فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس کی ترکی بالخصوص استنبول میں سرگرمیوں کو مکمل بند کرنا ہوگا ۔
اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ تل ابیب بصورت دیگر ترکی کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے لئے راضی نہیں ہے ۔
لندن سے شائع ہونےو الے ترکی کے حمایتی جریدے کے اداریہ کے مطابق یہ انتہائی افسوسناک امر ہے ۔ عبدالباری عطوان کے مطابق یہ شرط اسرائیل کے بجائے ترکی کو رکھنے کی ضرورت تھی ۔ مگر افسوس کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ۔ ترکی نے اپنے عرب ممالک کو نظرانداز کرکے نقصان اٹھایا ہے ۔
شام اور لیبیا میں ترکی کی عسکری مداخلت سے عرب خطے میں ترکی اپنی مقبولیت کھورہاہے جس کے بعد اب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور اسرائیلی شرائط تسلیم کرنے کی صورت میں ترکی عالم اسلام کی سطح پر اس قائدانہ کردار سے بھی محروم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے جس کے بارے میں ترکی جیسے عظیم اسلامی ملک سے توقع کی جارہی ہے ۔ ترکی کو شام ،عراق اورمصر کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اسرائیل کی جانب لپکنے کی ۔
ترکی نے اب تک اسرائیلی خط کا جواب نہیں دیا لہذا اس حوالے سے ترکی کے جواب کا انتظار ہے ۔