Home دلچسپ دِلی کی بِپتا

دِلی کی بِپتا

تحریر: محمد فواد انور

نام کتاب : دِلی کی بِپتا
مصنف : شاہد احمد دہلوی
پبلشرز: الحمد پبلیکشنز لاہور
تعارف: مُحَمّد فواد انور

شاہد احمد دہلوی کا مختصر تعارف:
نام : شاہد احمد
پیدائش: دہلی ، 22 مئی 1906ء
تعلیم : بی اے ( آنرز)
شادی : پہلی 14 جنوری 1922ء عالیہ بیگم سے
دوسری شادی : 1938ء عاصمہ بیگم سے
ساقی کا اجراء: جنوری 1930ء
پاکستان رائٹرز گلڈ کی بنیاد: جنوری 1959ء
صدارتی انعام: 1963ء
وفات : 27 مئی 1967ء کراچی

اس کتاب کے بارے میں ارشد نعیم لکھتے ہیں ؛

”شاہد احمد دہلوی کے اسلوبِ تحریر کا اصل حوالہ تو ان کی خاکہ نگاری ہے مگر دہلی کی بربادی پر لکھی گئی ان کی تحریر ”دلی کی بِپتا“ اور ”اجڑا دیار“ اپنے خاص موضوع اور تاریخی آشوب کے باعث اہمیت کی حامل ہیں۔

دلی کی بپتا ایک رپورتاژ ہے اور ہم اسے اس صنف کے حوالے سے بھی دیکھ سکتے ہیں مگر اس کے ادبی حسن تک رسائی کے لیے آپ کو شاہد احمد دہلوی کے اسلوب نثر سے پوری طرح آشنا ہونا پڑے گا تب اس کے محاسن آپ پر کھل پائیں گے کیونکہ ایک حقیقی تخلیقی کار جب کسی صنف کو اظہار کا وسیلہ بناتا ہے تو اس کے بنے بنائے ماڈل کو من و عن قبول کرنے کے بجائے اس میں اپنے مزاج اور میلان کے مطابق ہیئتی اور فکری سطح پر تبدیلیاں کرتا ہے۔

”دلی کی بپتا“ دراصل ایک اجڑے دیار کی نوحہ خوانی ہے مگر شاہد احمد دلوی کی شخصیت کی تہذیبی جہت نے محض اسے ایک نوحہ نہیں رہنے دیا بلکہ اسے ادب پارہ بنا دیا ہے۔

دلی جو صدیوں تک مسلمانوں کا پایہ تخت رہی ان کے لیے بار بار تختہ بنتی رہی۔ حملہ آور آتے اسے تاراج کرتے، تاراج کر کے پھر بساتے ۔اپنا سکہ چلاتے اور یہ ایک بار پھر ہنستی کھیلتی نظر آتی۔
یہ سلسلہ 1947 کے ہنگامے پر ختم ہوا شاہد احمد دہلوی اس رپورتاژ کا آغاز ہی 1857 کے غدر سے کرتے ہیں اور اس کا موازنہ 1947 کے ہنگامے سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”بڑے بوڑھوں سے غدر کے واقعات اکثر سنے اور خواجہ حسن نظامی صاحب کے لکھے ہوئے بھی سارے پڑھے اور سوچتے تھے کہ ایسی تباہی دلی پر تو کبھی آئی ہے اور نہ کبھی آئے گی لیکن ستمبر کی غارت گری کے آگے 1857 کی بربادی ہیچ ہو گئی اتنی بڑی تباہی تو دنیا کی تاریخ میں کبھی آئی ہی نہیں۔“ ( ص28)

دلی شہر صدیوں سے دارالحکومت چلا آ رہا ہے اور اس کے حکمرانوں کی اکثریت علم و ہنر اور فنون لطیفہ کی قدردان تھی اس لیے برصغیر پاک و ہند ایران اور وسطی ایشیا تک کے صاحبان فن اس شہر کی طرف کھنچے چلے آئے اور یہاں ہر دور میں نابغہ روزگار ہستیوں کا اجتماع رہا ، اس لیے جب بھی دلی تاراج ہوئی اس کی مرثیہ خوانی اہل ہنر نے خوب کی، خدائے سخن میر تقی میر نے کہا :
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
”دلی کی بپتا“ دراصل شاہد احمد دہلوی کے خون جگر کی نمود ہے ۔انہوں نے دلی کی بربادی کے ایسے ایسے مرقعے کھینچ دیے ہیں کہ قاری کا کلیجہ غم اور دکھ سے شق ہو جاتا ہے اور جن آنسوؤں کو مصنف نے دوران تحریر ضبط کیے رکھا بالآخر قاری کی آنکھ سے بہہ نکلتے ہیں۔“

ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں؛


” میں شاہد صاحب کی تحریروں کو اسی ذائقہ اور چٹخارا کے لیے پڑھتا ہوں تاکہ جدید نثر کے صحرائے اعظم کی تپش اور جھلسا دینے والی کڑی دھوپ سے کچھ دیر کے لیے عافیت پا سکوں۔ ان کی نثر میں مجھے خوشبو کا احساس ہوتا ہے ، وہ خوشبو جو جدید نثر میں بہت کم محسوس ہوتی ہے ۔ان کی نثر کی سب سے اہم خصوصیت یہی ہے کہ وہ شگفتہ ہے۔ پڑھنے والا اسے مزے لے لے کر پڑھتا ہے اور بات پورے طور پر دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے ان کی نثر سب سے الگ ہے۔ اسے تاش کے پتوں کی طرح مختلف نظر پاروں کے ساتھ پھانٹ دیجئے وہ خود ہی پکار اٹھے گا۔” میں یہاں ہوں میں یہاں ہوں۔“

”دلی کی بپتا“ آج بھی اسی طرح دلکش اور دلچسپ ہے۔ دلی کی بپتا سے اور کچھ نہیں تو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اچھی نثر وقت کی تیز دھار سے فن پارے کو کس طرح محفوظ کر لیتی ہے ۔انداز بیان ہی وہ چیز ہے جو کسی تحریر کو ہمیشہ نیا رکھتا ہے۔ آب حیات تاریخ لحاظ سے کذب و افترا کا دفتر ہے لیکن آج بھی یہ کتاب اسی طرح تروتازہ اور زندہ ہے اور اس کے پڑھنے میں آج بھی وہی لطف اٹتا ہے۔ دلی کی بپتا کی نثر آج بھی اسی طرح لطف دیتی ہے اور آج بھی دل پر اسی طرح اثر کرتی ہے ۔

کتاب سے چند اقتباسات:

”جب ہندو مسلمان میں کشمکش بڑھنی شروع ہوئی تو جن جن علاقوں میں ملی جلی ابادی تھی مسلمان خطرے میں پڑ گئے تھے چاہے اکثریت میں ہوں چاہے اقلیت میں دلی پولیس کے مسلمان ملازموں سے ہتھیار لیے گئے تھے اور وہ نوکریاں چھوڑ کر بھاگ رہے تھے مسلمانوں کے ہتھیار ضبط ہو رہے تھے اور ہندوؤں کو لائسنس دیے جا رہے تھے یہاں تک کہ مسلمان سب کے سب تقریبا نہتے ہو گئے اور ہندو سارے مصلح سکھوں کی کرپانے بڑھ کر تلواریں بن گئی تھی اور مسلمانوں کے احتجاج کے باوجود کوئی باز پرس نہیں ہوئی“ ( ص 38)

”ہمارے محلے میں ایک عورت پہنچی جس کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے تھے اور اس کے کئی زخم کمر اور پیٹ پر تھے۔ یہ غریب اپنے گود کے بچے کو لے کر پہاڑ گنج کے مکانوں پر چھپتی پھری لیکن ایک سکھ نے اسے دیکھ لیا اور سمجھا کہ اس کے پاس کوئی قیمتی چیز ہے ۔اس نے تلوار سے وار کیا تو بچے کو بچانے کے لیے عورت نے وار کو ہاتھ پر روکا، ہاتھ کٹ گیا ، دوسرے کو دوسرے ہاتھ پر روکا وہ بھی کٹ گیام اس کے بعد وہ بے ہوش ہو گئی اور اس کا بچہ روتا رہا اور لاشوں میں اپنی ماں کو ٹٹولتا پھرا یہاں تک کہ کئی گھنٹے بعد بچے کے رونے کی آواز سن کر کسی بھلے مانس نے ادھر کا رخ کیا اور دونوں کو بہ ہزار دقت شہر پہنچایا ۔کوئی ظلم ایسا نہ تھا جو پہاڑ گنج کے مسلمانوں پر نہ توڑا گیا ہو اور کوئی ذلت ایسی نہ تھی جو ان پر پوری نہ کی گئی ہو اور پھر سکون ہو گیا اور پہاڑ گنج کے گھروں اور مسجدوں میں شرنار تھی بس گئے ۔“ (ص 41)

ہندو لیڈرشپ میں گاندھی ہی ایک ایسی شخصیت تھے جس سے ان کو کچھ مدد اور ڈھارس کی امید تھی۔ 12 ستمبر کو جمعہ کے دن گاندھی کی آمد کی خبر ملی تو مسلمانوں میں امید کی کرن پیدا ہوئی۔
” گاندھی جی جامع مسجد میں اندر آئے ۔کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن ہجوم بے قاعدہ تھا اس لیے چند الفاظ کہہ کر واپس چلے گئے۔ مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ مہاتما گاندھی زندہ باد کے نعرے لگاتے لگاتے ان کے گلے بیٹھ گئے تھے ۔اس وقت لوگ خدا کو بھول گئے تھے اور گاندھی جی ہی کو قادر مطلق سمجھ رہے تھے۔“ ( ص 46)

اس ہجرت کے دوران پیش آنے والے خون آشام واقعات کو حیطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ ان کے ذکر کو ایجاز و اختصار کے ساتھ ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔ سو شاہد احمد دہلوی نے یہ کام بخوبی کیا ہے ۔

”رنڈیاں سرکاری ٹکٹوں پر ہوائی جہازوں سے پاکستان روانہ ہونے کے لیے پر تول رہی تھیں ۔ان کے چاہنے والے افسروں نے انہیں اپنی بیویاں بنا کر ٹکٹ بھیج دیے تھے۔ قائد اعظم نے مہاجرین کے لیے بطور خاص بی۔او۔ اے ۔سی کے جو ہوائی جہاز بھیجے تھے ، ان میں زیادہ تر رنڈیاں اور بھڑوے ہی پاکستان گئے۔ ( ص90-91)

مہاجر موج در موج ہندوستان سے چلے آ رہے تھے ۔جس کا کوئی ٹھور ٹھکانا نہیں تھا وہ کیمپ میں پہنچ جاتا ۔والٹن کیمپ میں کئی لاکھ مہاجر پڑے ہوئے تھے۔ لاہور کی سڑکوں پر اور میدانوں میں مہاجر پڑے ہوئے تھے۔ والٹن کیمپ میں ہیضہ پھیلا ہوا تھا اور جابجا مردے پڑے دکھائی دیتے تھے۔ خندق کھود کر انہیں ایک طرف دبا دیا جاتا تھا۔ مہاجروں کی اس بے سر و سامانی سے یار لوگوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ پرانے قلعے کی طرح یہاں بھی سینکڑوں صراف اونے پونے سونا خریدتے پھرتے تھےم جو کچھ پرانے قلعے میں ہو رہا تھا اس سے زیادہ والٹن کیمپ میں ہو رہا تھا۔ ( اجڑے دیار سے ، ص 93)

وہ دلی جو 1947 میں اجڑی وہ کبھی دوبارہ آباد نہیں ہو سکے گی مگر اس کے رنگ ”دلی کی بپتا“ اور شاہد احمد دہلوی کے خاکوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے. ان سے آنے والے اہل دل اپنے لیے محبت کے چراغ روشن کرتے رہیں گے۔ (ارشد نعیم)

Exit mobile version