تحریر: فیض اللہ خان
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی کیفیت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے وہ بیچارے اسلام کا قلعہ سمجھ کر تشریف لائے تھے آگے سے وہ وہ کچھ دیکھنے سننے کو مل رہا ہے کہ جس کا انہوں نے سوچا بھی نہ تھا۔
یہ نوے کی دھائی کی بات ہے جب ” آر پار ” آنا جانا معمول تھا (ہندی زہر انتظام علاقے کو حریت پسند پار کہا کرتے اور یہاں والے علاقے کو آر یا یہ والا پار تھا وہ آر اسمیں کوئی اصلاح کرسکتا ہے ) تو ” پار ” سے نوجوانوں کا ایک گروہ آزادی کے خواب سجائے پہنچا اس گروپ کو لیڈ کرنیوالا نوجوان عبد الباسط بھی وہیں کا تھا جس کا آنا جانا لگا رھتا تھا خیر عبد الباسط ہمارے گاؤں آئے تھے اور ماموں مرحوم کو یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ جب ہم پنڈی صدر پہنچے تو میرے لئیے سب سے بڑا مسئلہ سینما گھروں اور ان پہ لگے واہیات بڑے ہورڈنگز سے بچاتے ہوئے ان نوجوانوں کو اپنے دفتر پہنچانا تھا دن بھی جمعے کے بعد کا تھا اور طویل قطاریں لگی پڑی تھیں وجہ یہ تھی کہ ” پار ” کے لوگ اس دھرتی کو نہایت خالص اور اسلام کا مرکز تصور کرتے تھے ایسے میں سینماء گھر وہاں لگی واہیات فلمیں انکے لئیے شاکنگ تھیں بہرحال ان نوجوانوں نے اسکے باوجود وہ چیزیں رستے میں دیکھیں اور انہیں بہت عجیب لگا کہ ایک اسلامی ریاست میں وہ سب کچھ نسبتاً کم شدت سے ہورہا ہے جو ہند میں عام ہے۔
نوے کی دھائی کے اس ہنگام میں عبد الباسط بھی وہاں لڑتے ہوئے ہمیشہ کیلئے افق کے اس پار چلا گیا۔
ذاکر نائیک صاحب کا بھی معاملہ بھی کچھ یونہی لگتا ہے پاکستان آنے پہ انکی ملاقات ڈاکٹر اسرار رحمہ اللہ یا اپنے اہلحدیث حضرات سے ہوا کرتی تھی اب ایک تو عوام کو سننے سنانے کا انہیں موقع ملا ہے جو اسلام کی حقیقی روح سے زیادہ قومی مسلکی اور لبرل نظریات کے مکسچر سے بھرپور ہیں دوسرا پاکستان میں اپنے نظریاتی تشخص کے بر خلاف ریاستی سطح پہ کنفیوژن اس درجے کی ہے کہ خود انہی کے پروگراموں میں پہلے قومی ترانہ بجتا ہے پھر تلاوت ہوتی ہے ہمیں ترتیب معلوم ہی نہیں کہ پہلے کیا کرنا ہے بعد میں کیا ۔۔۔۔۔۔
نوٹ:
اسلام کا تفریح کا اپنا تصور ہے سینماء میں کس قسم کی فلمیں ہونگی اسکا تعین اسکے مواد پہ ہوگا اس زمانے میں مختلف فلموں کے نہایت بیہودہ پوسٹرز لگتے تھے بامقصد اصلاحی تفریحی فلمیں ایران بھی پیش کرتا ہے جسمیں بےحیائی کا عنصر شامل نہیں ہوتا۔