اقوام متحدہ: پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی ہنگامی اجلاس میں فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینی سرزمین پرفوری طور پر قبضہ ختم کرنے کے لیے عالمی عدالت کے احکامات کی تعمیل کرے۔ یہ بات اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی ہنگامی اجلاس میں کہی جہاں ایک مسودہ قرارداد پر غور کیا جا رہا ہے جس میں 12 ماہ کے اندر فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قبضہ ختم کرنے اور اس ملک کے خلاف ہتھیاروں کی پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پاکستانی مندوب منیر اکرم نے 193 رکنی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس ہنگامی اجلاس کی وجہ جولائی میں بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے)کی جانب سے جاری ہونے والی فیصلے پر عملدرآمد کرنے پر زور دیناہے ۔
انہوں نے کہا کہ آئی سی جے کے فیصلہ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور غزہ پر اسرائیل کا قبضہ اور اس کے قبضے کو طول دینے کی اس کی کوششیں اور اس کی سکیورٹی پالیسیاں بین الاقوامی قانون کے دو بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں جن میں لوگوں کو ان کا حق خود ارادیت دینا اور طاقت کے استعمال سے علاقے پر قبضہ نہ کرنا شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی سی جے کا فیصلہ انصاف کا ایک سنگ میل، مساوات اور امید کی نشاندہی کرتاہے۔ فلسطین کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد کے مسودے کو پاکستان کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے جس میں آئی سی جے کے فیصلے پر عمل درآمد پر زور دیا گیا ہے اور رکن ممالک کی ایک بڑی تعداد نے متن کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا۔ توقع ہے کہ جنرل اسمبلی بدھ کو مسودے پر کارروائی کرے گی۔
دوسری جانب اسرائیل نے مجوزہ قرار داد کے متن کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ قرارداد کی شرائط کے مطابق جنرل اسمبلی مطالبہ کرے گی کہ اسرائیل اس قرارداد کی منظوری کے 12 ماہ بعد مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اپنی غیر قانونی موجودگی کو ختم کرے اور اپنی تمام نئی آباد کاری کی سرگرمیاں فوری طور پر بند کرے اور تمام آباد کاروں کو مقبوضہ فلسطینی علاقے سے نکالے۔ جنرل اسمبلی اسرائیل سے مطالبہ کرے گی کہ 1967 میں اسرائیلی قبضے کے بعد سے قبضے میں لی گئی فلسطینی زمین واپس کر دی جائے اور بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت دی جائے۔ اس متن میں جنرل اسمبلی کا یہ مطالبہ بھی شامل ہوگا کہ اسرائیل بشمول بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے مقرر کردہ اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی تمام قانونی ذمہ داریوں کی تعمیل کرے ۔
جنرل اسمبلی ریاستوں سے مطالبہ کرے گی کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی غیر قانونی موجودگی کو قانونی تسلیم نہ کریں اور تجارتی یا سرمایہ کاری کے تعلقات کو روکیں جو اسرائیل کی طرف سے پیدا کی گئی غیر قانونی صورتحال کو برقرار رکھنے میں معاون ہیں۔ پاکستانی مندوب منیر الرم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئی سی جے کا فیصلہ ایڈوائزری اوپنین ہے اور قرارداد کی منظوری فلسطینی عوام کے مصائب کے خاتمے کی جانب فیصلہ کن قدم ثابت ہو گی۔
انشاء اللہ فلسطین جلد آزاد ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ عرب اور اسلامی ممالک کی مخالفت کے باوجود فلسطین کی تقسیم سمیت فلسطینی عوام کی المناک تاریخ نوآبادیاتی اور سامراجی طاقتوں کی طرف سے مسلط کردہ قانونی اور سیاسی فیصلوں کے ایک سلسلے کی وجہ سے ہوئی۔ پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے 1948 میں خبردار کیا تھا کہ اسرائیل کے قیام کے سنگین نتائج ہوں گے اور اب تاریخ ان نتائج کی گواہ ہے۔ فلسطین پر 50 سال سے اسرائیل کا ظالمانہ قضہ ، غیر قانونی اور جارح یہودی آباد کاروں کو رہنے کے لیے فلسطینیوں کی زمینوں، جائیدادوں اور مکانات کاحصول جاری ہے ۔
مقبوضہ فلسطین میں الگ الگ نسل پرستی کی حکمرانی کا نفاذ ہے منیر اکرم نے کہا کہ قرارداد کی منظوری کے لیے فلسطین کے حوالے سے رکن ممالک اور اقوام متحدہ بالخصوص سلامتی کونسل کے مؤقف کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی۔ اسے بین الاقوامی برادری کی کوششوں کو تقویت دینی چاہیے کہ وہ اسرائیل کو غزہ میں اپنی نسل کشی کی فوجی مہم اور مغربی کنارے میں اپنی جارحانہ کارروائیوں کو روکنے اور وہاں سے اپنی افواج کو فوری طور پر واپس بلانے کے لیے مجبور کرے۔نیز وہ ریاستیں جو اسرائیل کو فوجی اور مادی مدد فراہم کر رہی ہیں، انہیں اپنی ذمہ داری کے مطابق اسرائیلی قبضے کو روکنا چاہیے اور اس کی مدد نہ کریں۔
مزید یہ کہ عالمی برادری کو فلسطینیوں کو اپنے حق خودارادیت کا استعمال کرنے کے قابل بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں جن میں ایک یہ ہے کہ ریاست فلسطین کو اقوام متحدہ کا مکمل رکن تسلیم کرنا ہے اور دوسرا یہ کہ دو ریاستی حل کو آگے بڑھانے کے لیے فلسطین پر بین الاقوامی کانفرنس بلانا ہے۔ پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان آئی سی جے کی مشاورتی رائے اور مسودہ قرارداد کی منظوری کے مقاصد اور فیصلوں کے حصول کو فعال طور پر فروغ دے گا